چلہ کشی
صوفیائے کرام امت کے لئے ایک مشعل راہ ہیں’ہمارے لئے سب سے بڑا عمدہ اور کامل نمونہ تو حضور ﷺ کی ذات ستودہ اور صفات محمودہ ہے پھر صحابہ اخیار ‘ پھر اہل بیت اطہار‘ پھر تابعین ذوی الوقار وغیرہ تابعین کے بعد ہمارے پاس صرف صوفیائے کرام کا ماڈل بچ جاتا ہے انہوں نے عبادت الہٰی کے متعدد طریقے دنیا کے سامنے رکھے ‘ ان میں سے ایک چلہ کشی ہے جس کے متعلق آئندہ سطروں میں قدرے روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا۔
چلہ کا لغوی معنی ہے کمان کی تانت‘ چالیس دن کا عرصہ‘ چالیس روز کامل ‘ وہ جگہ جہاں کسی بزرگ نے چلہ کیا ہو اور اس کا اصطلاحی معنی ہے چالیس دن فقیر لوگوں کا گوشہ میں بیٹھ کرعبادت کرنا۔ خود سید نا موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طور پر چالیس روز کا چلہ کیا ہے تب ان کوتوریت سے مشرف کیا گیا‘ارشاد خداوندی ہے {و واعدنا موسیٰ اربعین لیلتہ ثم اتخذتم العجل من بعدہ و انتم ظالمون}ترجمہ :۔ یادکرو ہم نے موسیٰ سے چالیس رات کا وعدہ کیا پھر اس کے (کوہ طور جانے کے بعد) بعد تم لوگوں نے بچھڑے کو معبود بنالیا اور تم لوگ ظالم ہو(سورئہ بقرہ)
اس آیت کریمہ کی تفسیر میںعلامہ جلا الدین سیوطی رقم طراز ہیں’’ابن جریر نے باری تعالیٰ کے اس قول کے بار ے میں ابو العالیہ سے راویت کرتے ہوئے تخریخ کی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے اصحاب کو چھوڑ کر اور ہارون علیہ السلام کو انکا خلیفہ بنا کر کوہ طور پر توریت لینے کے لئے گئے چالیس راتیں طور پر رہے اور اﷲ نے ان پر توریت تختی میں اتاری پس پروردگار نے انہیں راز دار بنا کر خاص قرب سے نواز اور گفتگو سے سرفراز فرمایا اور انہوں نے قلم کی چرچراہٹ سنی، ہمیں خبر ملی ہے کہ وہ چالیس راتوں میں کسی قسم کے حدیث سے دو چار نہیں ہوئے یہاں تک کہ وہ طور سے اتر آئے۔(بحوالہ جلالین)
نبی اکرم ﷺ غارحرا میں تشریف لے جاتے اور وہاں عبادت میں مصروف رہا کرتے تھے۔آپ کو وہاں بیٹھ کر عبادت کرنے میں بڑا لطف آتا حتی کہ کھانا تناول کرنے کے لئے اپنے گھر نہیں جاتے بلکہ توشہ وہیں لایاجاتا ۔ چنانچہ پہلی وحی حضرت جبریل لائے تو آپ غار حراہی میں رونق افروز تھے۔ اور اسکی تائید میں ایک مختصر مگر جامع روایت نقل کرتا ہوںکہ’’ ابن اسحاق وغیرہ نے روایت کی ہے کہ حضورﷺ ہر سال کسی مہینے میں غار حرا تشریف لے جایا کرتے وہاں مصروف عبادت رہتے یہاں تک کہ جب اعتکاف سے لوٹتے تو جب تک کعبہ اطہر کا طواف نہ کر لیتے کاشانہ اقدس میں داخل نہ ہوتے (الانوارالمحمدیتہ من المواھب اللدنہتہ)۔
اس سے معلوم ہوا کہ گوشہ نشینی کر کے رب تعالیٰ کی عبادت کرنے اور اسکاذکر کرنے سے اولیاء اﷲ کو اپنے رب کا قرب خاص حاصل ہوتا ہے اور دل ایسا روشن ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے دل کے نور سے ساری دنیا کو ایسے ملاحظہ فرماتے ہیں جیسے ہتھیلی میں رائی کا دانہ۔ مزید برآں چالیس دن کی مدت تبدیلی اوصاف میں بہت زیادہ مؤثر ہے کہ اگر چالیس دن بندئہ مؤمن گوشہ نشینی کر کے عبادت الٰہی کی لذت سے سرشار ہوتا ہے تو اسکے دل کی دنیا میں ایک زبردست انقلاب رونما ہوتا ہے جو اس کو گناہوں سے متفر اور نیکیوں کا عادی بنادیتا ہے چنانچہ حدیث پاک چالیس دن کی تاثیر کو کچھ اس انداز سے اجاگر کرتی ہے کہ ’’عبداﷲ ابن مسعود سے مرو ی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم میں سے کسی کی پیدائش کرنی ہو تو اسکے ماں کے پیٹ میں چالیس دن نطفہ کو جمع کیاجاتا ہے۔ پھر اسی کی مانند (چالیس دن) بستہ خون رہتا ہے پھر اسی کی مانند (چالیس دن) لوتھڑا رہتا ہے پھر اﷲ تعالیٰ چار باتوں کے ساتھ وہاں فرشتے کو بھیجتا ہے تو اس کے کام’موت‘ رزق اور بدبخت ہے یا نیک بخت ‘ لکھتا ہے پھر اس میںروح پھونکی جاتی ہے۔
سید الاولیاء حضور غوث اعظم رضی اﷲ عنہ کے بارے میں بہت سی روایتیں ملتی ہیں کہ آپ نے چلہ کر کے رب تعالیٰ کی کثیر عبادت کی ہے یہاں تک کہ رب تعالیٰ آپ سے راضی ہوگیا۔ اولیائے عظام کے اندر عبادت الٰہی کا شوق و ذوق تو دیکھئے کہ کس طرح انہوں نے دنیا کی لذتوں ‘ خواہشوں اور آرائشوں کو چھوڑ کر رب جل جلالہ کو راضی کرلیا ہے اور اپنا ہر کام اسی کی خوشنودی اور رضا کے لئے کیا ہے۔اﷲ نے ان کو ایک ایسی طاقت و قوت دی ہے جس سے وہ اپنے مزار ہی میں رہ کر لوگوں کی مدد کرتے ہیں اور انکی مرادیں برلاتے ہیں یہ سب کچھ اﷲ کی عطا اور دین سے ہوتا ہے۔
بہت سے اولیائے کرام نے دین متین کی تبلغ و اشاعت کی خاطر اپنے عزیز وطن چھوڑے۔ انہیں میں سے ایک حضرت سید سلیمان شاہ قادری بغدادی رحمتہ اﷲ علیہ ہیں جن کے بار ے میں کہاجاتا ہے کہ آپ بغداد سے ہندوستان کے شہر لکشمشیور تشریف لائے اور وہاں کئی چلے کئے ‘
آپ بڑے تقویٰ شعاروعبادت گذار تھے۔آپ عبادت کی غرض سے شہر سے باہر ایک گوشے میں جا بیٹھتے اور وہاں یکسوئی کے ساتھ مصروف عبادت رہتے۔ جس جگہ آپ گوشہ نشیں ہوتے اس کو آج’’گوی‘‘ کے نام سے جاناجاتا ہے جو ساری آبادی سے ہٹ کر ایک قابل جگہ ہے ۔زائرین آج بھی اپنی منتوں کی تکمیل کے لئے اس مقدس مقام کی زیارت کرتے ہیں اور اپنے اندر بھی عبادت کا جذبہ بیدار کرتے ہیں۔ یہاں ایک بات ذکر کرنا نہایت ضروری سمجھتا ہوں کہ ولی اﷲ کی چلہ کی جگہ پرانکی فرضی مزار بنانا ناجائز و حرام ہے۔ بہت سے علاقوں میں ایسا دیکھا جاتا ہے
کہ لوگوں نے فرضی مزاریں بنا رکھی ہیں یہ کسی رو سے درست نہیں ہے۔ ہندوستان کے مختلف صوبوں سے لوگ جوق درجوق لکمشیشور کی جانب آتے ہیں تاکہ وہاں موجود ولی کامل کی بارگاہ سے فیض حاصل کریں۔ وہاں یہ دیکھا جاتا ہے کہ بہت سے بیمار‘کمزور اور آسیب زدہ لوگ آتے ہیں اور کچھ ہی دنوں میں صحت ہو کر لوٹتے ہیں۔
اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ وہ ہمیں علماء اولیاء کی قدروعزت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ زہد و تقویٰ اور عبادت دریا ضت کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین
No comments:
Post a Comment