Wednesday, June 20, 2018

شیخ افغان کو جن سے بچانے کی کرامت

doodh nana sandal badshah qadri someshwara temple laxmeshwar karnataka laxmeshwar population doodh nana dargah nearest railway station laxmeshwar taluk villages list laxmeshwar videos laxmeshwar to gadag lakkundi temples photos doodh nana sandal badshah qadri someshwara temple laxmeshwar karnataka laxmeshwar population doodh nana dargah nearest railway station
شیخ افغان کو جن سے بچانے کی کرامت
’’کوئی مصیبت نہیں پہنچتی مگر اللہ کے حکم سے اور جو اللہ پر ایمان لائے اللہ انکے دل کو ہدایت فرمادیگا اور اللہ سب کچھ جانتا ہے ۔‘‘( پارہ نمبر ۲۸ سورہ التغابن آیت نمبر ۱۱)
لفظ ولی اللہ کے معنی اللہ کے دوست کے ہوتے ہیں۔ جس طرح دنیوی زندگی میں ہر ایک کو اپنا دوست محبوب ہوتا ہے۔ وہ دوست کی دوستی نبھانے کے خاطر اسکی ہر بات کو مانتا ہے ، اور اسے خوش کرنا چاہتا ہے ، اسے ناراض ہونے نہیں دیتا اسی طرح اللہ بھی اپنے ولیوں کو ہر وقت خوش رکھنا پسند کرتا ہے۔
اللہ کے ولی دنیا کی زندگی کی طرف متوجہ نہیں ہوتے نہ انہیں دنیا کی دھن دولت سونا چاندی خوش رکھتی ہے بلکہ وہ اپنی خوشی ذکر الٰہی میں تلاش کرتے رہتے ہیں۔الا بذِکراللہ تطمئن القلوبسن لو بیشک اللہ کی یاد ہی سے دلوں کو چین ہے ( سورہ الرعد آیت نمبر ۲۸) کے مطابق وہ ہر وقت ذکر الٰہی میں مشغول رہتے ہیں
اللہ تعالیٰ قرآن کی سورہ یونس (آیت نمبر ۶۲) میں اللہ کے ولی کے متعلق یوں فرماتا ہے ۔ ’’الا اِنّ اَواولیائَ اللہِ لا َ خَوفُ عَلٰیھِم ولا ھُم یحزنون‘‘سن لو بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم ۔ یہ آیت اس بات کا ثبوت دے رہی ہے کہ اللہ کا ولی ڈر اور غم سے دور رہتا ہے۔ جب یہ دونوں چیزیں اگر انسان کے دل میں نہ ہوں تو وہ پر سکون زندگی گذارتا ہوا نظر آتا ہے  غم اور ڈر دو ایسی چیزیں ہیں جن کی وجہ سے انسان مایوس اور مجبور ہو جاتا ہے ۔ جب یہ چیزیں دل سے نکل جائے تو انسان کی زندگی پر لطف بے خو ف اور بے فکر (Tension free) ہو جاتی ہے۔
شہرت سے نفرت:۔
اللہ کے ولی کی پرہیزگاری پاکیزہ زندگی گذارنے کے باعث وہ لوگوں میں بہت جلد جانے جاتے ہیں۔ کچھ ہی دنوں میں انکا چرچہ ہونے لگتا ہے۔ مگر وہ خود اس چرچہ کو پسند نہیں کرتے۔یہی وجہ ہے کہ چند اولیائے کرام اپنی عبادت کسی جنگل یا سنسان جگہ ۔ پہاڑی یا گوفہ میں کرتے ہیں۔ چند اولیا کرام تو جس جگہ اپنا چرچہ زیادہ ہوتا ہے اس جگہ کو چھوڑ کر کسی اور جگہ جانا پسند کرتے ہیں۔
دنیاوی زندگی سے دوری:۔
اولیا اکرام کو عام طور پر دنیوی زندگی سے دلچسپی نہیں رہتی وہ ہر وقت ہر لمحہ یا د الہی میں مشغول رہتے ہیں ۔ گھریلو زندگی  کہیں انکی عبادت میں خلل نہ ڈالے اسی وجہ سے وہ اپنے گھر بار کو چھوڑ کر یاد الہی میں نکل جاتے ہیں۔ انکے نزدیک دنیا کچھ قیمت نہیں رکھتی دنیا کے عیش و عشرت کو ترک کرکے اپنے نفس کو مارتے ہیں۔  اللہ کے برگزیدے  بندے کا ذکر ہے کہ وہ ا پنے گھر سے صرف جماعت سے نماز پڑھنے کے لئے مسجد کو اور کسی کی نماز جنازہ میں شرکت کرنے کے لئے ہی باہر نکلا کرتے تھے۔ (فیضانِ سنت )
مریدوں سے محبت:
اللہ کے ولیوں کے کردار دیکھ کر کچھ لوگ انکے قریب آتے ہیں ، اور ان سے دل لگا کر اتنا قریب ہو جاتے ہیں کے وہ ہر معاملہ میں انکی رائے کے  بغیر کچھ نہیں کرتے وہ اپنے ولی کو مرشد مانتے ہیں۔ روحانی میدان میں انکو استاد مانتے ہیں۔ مرشد بھی اپنے مریدوں کو اپنے بچوں کی طرح سمجھ کر ہر میدان مین انکی رہنمائی کرتے ہیں۔
لکشمیشور کے ولی کامل حضرت سید سلیمان  بادشاہ قادری کے بھی چند مرید تھے۔ جن میں ایک شیخ افغان بھی تھے۔ وہ لکشمیشور کے صدیق محلہ میں رہتے تھے۔ دودھ نانا کے بڑے عاشق تھے ۔ ایک دن بیوپار کے غرض سے شیخ افغان لکشمیشور سے 12 کلومیٹر ایک گاوَں گڈگیری کو گئے۔ اس دن اماوس تھی۔ اپنے پورے کام ختم کرکے واپس پیدل چلتے ہوئے لکشمیشور کے طرف روانہ ہوئے چلتے چلتے راستے میں رات ہوگئی۔
یہ اکیلے ساتھ میں کوئی نہیں تھا۔چلتے چلتے تھک گئے ۔ اور ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ تھکان کے سبب نیند آگئی وہ جاگ کر تھوڑی دیر کے لئے درخت کو ٹیک لگا کر بیٹھے بیڑی پی رہے تھے ۔ جس درخت کے نیچے یہ بیٹھے تھے وہ درخت بہت پرانہ تھا۔ اس درخت پر ایک شریر جن رہتا تھا۔ وہ نیچے اتر کر جانا چاہتا تھا۔ مگر جب اس نے شیخ کو راستے میں بیٹھا دیکھا تو وہ شیخ کے سامنے آگیا۔ اس جنکی بھیا نک شکل دیکھ کر تھر تھرا نے لگے۔ کچھ ہی دیر میں شریر جن شیخ کو نیچے گرا کر ان کے سینہ پر سوار ہوگیا۔ شیخ کو ایسا لگا کہ وہ جن انہیں چھوڑیگا نہیں۔ اس سے بچنا مشکل ہے کوئی ساتھی مددگار بھی نہیں اس مشکل وقت میں شیخ نے اپنی آنکھیں بند کرکے اپنے چاہنے والے پیر مرشد حضرت دودھ نانا کو اپنے دل میں یاد کیا

 تو حضر ت مدد کے لئے فوراً حاضر ہوگئے جیسے ہی جن نے حضرت دودھ نانا کو دیکھا تو گھبرا گیااور کانپتے ہوئے چیختے چلاتے وہاں سے بھاگ نکلا۔
غائب ہوگیا اس طرح شیخ کو ایک ولی کی محبت نے شریر جن کے شکنجے سے چھٹکارا دلایا۔
 شیخ افغان نے دوسرے دن صبح ہوتے ہی دودھ نانا کے حجرے میں آئے اورلوگوں کے مجموعہ میں تفصیل سے سارا قصہ سنا یا اور دودھ نانا کے احسان عظیم کا شکریہ ادا کیا اور عمر بھر انکی خدمت کرتے رہے۔
دودھ نانا کے بہت سے کرامات آج  انکے پردہ کرنے کے بعد بھی جاری ہیں
 کہ انکے دربار میں کئی جن ،پری، آسیب زدہ لوگ حاضر ہوتے ہیں  انکو سزا دی جاتی ہے اور آخر میں وہ معافی طلب کرکے چلے جاتے ہیں۔ انکے دربار کی اسی زندہ کرامت کی وجہ سے لوگ یہاں ہر اماوس کو آتے ہیں۔ اور ہر اماوس کو عرس کی طرح بھیڑ جمع رہتی ہے۔
اور ایسا لگتا ہے کہ نانا کے دربار میں ہر اماوس کو عرس منایا جارہاہے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اس ولی کامل کے درجات کو اور بلند کرے اور ہماری یہ قلمی خدمت کو قبول فرمائے۔آمین۔

No comments:

Post a Comment

Urdu

Popular Posts

Popular Posts