حضرت صاحب حوالدار لکشمیشور
وفات کے بعد کی ایک کرامت
اولیاء اللہ اپنے دور حیات میں بہت سے کرامات لوگوں کی فلاح کی خاطر دیکھاتے ہیں اسی طرح انکے پردہ کر جانے کے بعد بھی لوگ عقیدت سے انکے مزاروں پر حاضری دیتے نظر آتے ہیں۔ زیارت قبور حدیث کی روشنی میں جائز ہے۔ لوگ اپنے درد وں کو صاحب قبر کو اپنا ہمدرد سمجھ کر سناتے ہیں اور انہیں وسیلہ بنا کر اللہ تعالی سے دعا مانگتے ہیں۔ اسی طرح کے بہت سے لوگ لکشمیشور کے حضرت سید سلیمان بادشاہ قادری عرف دودھ نانا کے دربار میں اپنے اپنے جسمانی اور روحانی پریشانیوں کو لے کر حاضر ی دیتے ہیں ایک واقعہ جو میری آنکھوں کے سامنے گذرا میں اس کتاب کے ذریعہ تمام لوگوں کے سامنے یہ واقعہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔
آج سے کئی سال پہلے یعنی 1968 کا ذکر ہے کہ ہمارا لکڑی کا اڈا دودھ نانادرگاہ کے سامنے تھا وہاں میںنے ایک دن اندھے بوڑھے آدمی کو دیکھا تو میں نے اس کے حالات دریافت کرنے کی کوشش کی وہ بیچارا اپنی آپ بیتی سنایا کہ وہ پاس کے شاہنور گائوںکا رہنے والا ایک غریب کسان تھا۔ ایک دن اس نے رات میں کھیت کی رکھوالی کرنے کیلئے وہیںکھیت میں رہا شاید اس دن اماوس کی رات تھی ایک زورکی ہوا چلی جھونپڑی میں رکھا ہوا چراغ بھی بجھ گیا۔ چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہوگیا۔ اس دور ان اسے ایسا لگا کہ کوئی اس کو پکڑ کر آنکھوں کو دبارہا ہے ۔ وہ درد کی وجہ سے چیخا چلایا ۔ مگر کچھ بھی نہیں ہوا اس نے اپنی آنکھوں میں شدید درد محسوس کیا ۔ تھوڑی دیر بعد اس کو کچھ بھی نظر نہیں آیا ۔ اس کے آنکھوں کی روشنی ہی چلی گئی تھی۔ اس کی زندگی اب اندھیرے میں کھو گئی تھی۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر وہاں کے رہنے والے ایک شخص نے اسے لکشمیشور کے دودھ نانا درگاہ جانے کی صلاح دی وہ اسی امید پر لکشمیشور آیا ہوا تھا۔
وہ بیچارہ چند دن درگاہ میں رہا کچھ ہی دنوں میں اس کی آنکھوں کے درد میں کمی آئی اور رفتہ رفتہ اس کی آنکھوں کی روشنی میں اضافہ ہوتا گیا اوروہ پورے طور پر شفا یاب ہوگیا۔ اس طرح اس نے نانا کی دعا اور اللہ کے کرم سے اپنی کھوئی ہوئی آنکھوں کی روشنی دوبارہ پالیا۔وہ نانا کے دربار سے خوشی خوشی اپنے گائوں لوٹ گیا۔
اس واقعہ سے پتہ چلا کہ اللہ کے ولی کے دربار میں غم زدہ لوگوں کی فریاد سنی جاتی ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کے کرم سے انکو اپنے غموں سے چھٹکارا ملتا ہے۔ یہ واقعہ صرف ایک نمونہ ہے۔اسی طرح کے بہت سے لوگ یہاں آکر اپنے جسمانی اور روحانی بیماریوں کا علا ج کراتے ہیں۔ اس لئے دودھ ناناکا نام شفا نواز سے مشہور ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں عقیدت مند لوگ سالانہ عرس کے علاوہ ہرماہ اماوس کے موقع پر عرس کی طرح جمع ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ نانا کا نام انکے پردہ کرنے کے بعد جس طرح مشہور ہورہا ہے اور بھی زیادہ مشہور ہو اورہم جیسے عاشقانِ اولیا کوبھی اسکا فیض پہنچے۔ آمین
No comments:
Post a Comment