دودھ نانا کی لکشمیشور آمد |
الحاج محمدحسین گتل وظیفہ یاب میرمعلم لکشمیشور
دودھ نانا کی لکشمیشور آمد
ولایت دربار خُدا وندی میں ایک خاص قرب کا نام ہے جو اﷲ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اپنے خاص بندوں کو عطا فرماتا ہے اولیااﷲ ہر زمانہ میں ہوتے ہیں اور قیامت تک ہوتے رہیں گے۔ لیکن ان کا پہچاننا آسان نہیں۔ اولیا اﷲ کو اﷲ تعالیٰ نے بڑی طاقت دی ہے جو ان سے مدد مانگے ہزاروں کو س کی دوری سے اُن کی مدد فرماتے ہیں۔ ان کا علم نہایت وسیع ہوتا ہے ۔ اولیا کو یہ سارے کمالات حضور صلی اﷲ علیہ و سلم کے واسطہ سے حاصل ہوتے ہیں۔
اولیا کی کرامت حق ہے کرامت کی بہت سی قسمیں ہیں۔مثلاً مردوں کو زندہ کرنا اندھوں اور کوڑھیوں کو شفا دینا۔ لمبی مسافتوں کو منٹ دو منٹ میں طے کر لینا۔ پانی پر چلنا۔ ہوائوں میں اُڑنا دُور دُور کی چیزوں کو دیکھ لینا وغیرہ وغیرہ۔
اولیااکرام کو دور نزدیک سے پکارنا جائز اور سلف صالحین کا طریقہ ہے اولیا کرام اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور اُن کا علم اور اُنکا دیکھنا اور اُن کا سُننا دنیوی زندگی سے زیادہ قوی ہوتا ہے۔ اولیا اکرام کے مزارات پر حاضری مسلمانوں کے لئے باعث سعادت و برکت ہے اور ان کی نیاز و فاتحہ اور ایصال ثواب مُستحب اور خیر و برکت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اسی لئے مولاناروم فرماتے ہیں ’’ ایک زمانہ صحبت بااولیاء پہتر از صدسالہ طاعت بے ریا ‘‘
دودھ نانا کا اصلی نام حضرت سید سلیمان بادشاہ قادری بغدادی رحمتہ اﷲ علیہ ہے۔ والد کا نام حضرت سید شاہ محمد قادری اور اُن کے مرشد کا نام حضرت سید حیات بادشاقادری اور دادا کا نام حضرت سید شاہ یحییٰ نور اﷲ قادری ہے۔
دودھ نانا بغداد سے اپنے چچا جان کے ساتھ ہی آئے پھر وہاں سے آپ تنہا کرناٹک آئے ٹمکور ۔کوڑ۔ہنگن کٹّا بنکاپور۔ شہنور۔ شگائوں سے شہر ہبلی کو تشریف لائے اور محلہ کمری پیٹھ میں مست علی شاہ بابا رحتمہ اﷲ علیہ کے درگاہ میں رہنے لگے وہاں پر بچوں کا عربی مدرسہ تھا اُس مدرسہ میں بچوں کو قرآن کی تعلیم دیتے رہے۔ آپ نے دین کی اشاعت کی خاطر گھر چھوڑا تھا۔اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر گھر چھوڑنے والوں کے لئے قرآن سورہ نحل کی آیت نمبر ۴۱ میں یوں فرماتا ہے ۔ اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں اپنے گھر بار چھوڑے مظلوم ہوکر ضرور ہم انہیں دنیا میں اچھی جگہ دیں گے اوربیشک آخرت کا ثواب بہت بڑا ہے کسی طرح لوگ جانتے۔اُسی دوران لکشمیشور کے مقیم شخص رزاق بیگ مرزا
اپنی گھریلو زندگی سے بیزار ہو کر گھر چھوڑ کر ہبلی چلے گئے تھے۔ ہبلی میںچند دن گزارے اچانک رزاق بیگ کی ملاقات دودھ ناناسے ہوئی چند دن گزرے اُنکی محبت رزاق بیگ کے دل میں بیٹھ گئی وہ ان کے ساتھ بارہاملاقات کرنے لگے انکاحال دیکھ کر دود ھ نانا سمجھ گے کہ رزاق بیگ کااپنا گھر چھوڑ کر یوں ہی بھٹکتے رہنا۔ بیوی بچوں سے رشتہ داروں سے دور رہنا ٹھیک نہیں۔ راحت وتکالیف زندگی میں آتے رہتے ہیں۔تکلیف آنے پر بزدل بن کر بھٹکتے پھر نا ٹھیک نہیںتم اپنے گائوںلکشمیشورکو جائو تمہاری زندگی خوش حال ہوگی فکرمت کرو جائو اُن کے باتوں کو سُن کر
رزاق بیگ نے کہا نانا جان مجھے گھر جانے کے لئے ڈرلگتا ہے تم خودمیرے ساتھ آنا اور میرے گھر والوں سے ملانا یہ کام آپ خُود کریں تو میں لکشمیشور جاتا ہوں اگر آپ میرے ساتھ نہیں آئے تو ہرگز میںلکشمیشورکو نہیںجائوں گا۔ ان بات کو سن کر حضرت سید سلیمان بادشاہ قادری بغدادی نے رزاق بیگ کو گھر پہنچانے کے لئے لکشمیشور تشریف لائے اور اُنکے سب رشتہ د اروں کو ملا کر کچھ باتیں نصیحت کر کے آگے کی زندگی خوش حال ہونے کے لئے دُعا کئے اور واپس ہبلی روانہ ہونے لگے رزاق بیگ دودھ نانا سے التجا کی کہ ناناجان آپ آئے ہیں تو دو چار دن ہمارے گھر میں رہیں یہ میری التجا ہے قبول فرمائیں
۔اپنے عاشق رزاق بیگ کی خواہش کے مطابق گھر کے قریب رہنے والے پُرانا آثار جہاںپر حضرت امین شاہ قادری گنجام والے پیراں کی مزارات ہیںاس جگہ پر رہنے لگے اسی دوران رزاق بیگ نے اپنے تمام گھر والوں سے التجا کی کہ ہم سب لوگ جتنے ہیں سب کے سب دودھ نانا کے مرید بنیں گے اُن سے بیعت لیں گے اور اپنی آخرت سنوارلیں گے اس بات کو سن کرگھر کے لوگ بگڑ گئے یہ بات اُن کو گوارہ نہیں ہوئی وہ اس بات کو قبول نہیں کئے بھڑک اُٹھے اور کہنے لگے ارے بھکاری فقیر کو گھر لا کر اُن سے ہماری بیعت کرا رہے ہوہم بیعت نہیںہونگے تم اگر خیریت سے رہنا چاہتے ہوتو رہو بیعت کی بات زبان سے نہ کہو اگر پھر وہی بات کرتے رہو تو تم کوگھر میں رہنے کی ضرورت نہیں تمہارے پیراور تم دونوں اس گھر سے باہر چلے جائو اس بات کو سن کر رزاق بیگ گھر والوں کو بہت نصیحت کئے اور کہا یہ نایاب ہستی کو تم ٹھکرا رہے ہو سوچو تم دین دنیا کی بھلائی اگر چاہتے ہو تو ان کے سلسلہ میں داخل ہوجائو ہر طریقے سے میں آزمایا ہوں یہ علم کا خزانہ ہے عمل کا ذخیرہ ہے ایسی ہستی کو تم چھوڑ کرپچھتائو گے۔ میں سوچ سمجھ کر ہر طریقے سے جانچ کر اُنکی غلامی میں آیا ہوں اُنکا پیالہ پی لیا ہوں۔اس طرح رزاق بیگ نے کہا
گھر کے تمام لوگ پیر کے خلاف ہی بکواس کرنے لگے تو رزاق بیگ سوچنے لگے کہ میراگھرمیں رہنا ٹھیک نہیں پیر کے ساتھ چلے جانا اُنکے قدموں میں رہ کر زندگی گزارنا بہتر ہے اس طرح سوچتے رہے تو نانا نے اُن کے دل کا حال معلوم کرلیا اور بلا کر کہا ائے رزاق بیگ تم میرے مرید ہو تم سوچ رہے ہو کہ گھربار چھوڑ کر میرے ساتھ چلنا اور زندگی بھر ساتھ رہنا یہ آپ کا خیال ٹھیک نہیں ہے تمہیں بیوی بچوں کے ساتھ دن گزارنا ہے میراکہا مانو اور گھر میں رہ کر خوش حال زندگی گزارو اس بات کو جب رزاق بیگ نے سنا تو پیر کی بات ٹال کراپنے خیالات کے مطابق زندگی گذارنا پسندنہ کیا پیر کے کہنے کے مطابق لکشمیشور کے اپنے ہی گھر میں رہنا پسند کیا۔ جب پیر کورزاق بیک کی بات بہت پسند آئی تو چند نصیحتوںبھرے الفاظ رزاق بیگ کو سنا کر ہبلی کو واپس ہوئے اور ہبلی میں ہی اپنی پہلی جگہ میں رہنے لگے۔
چنددن گزرے رزاق بیگ کے گھر میں سب لوگوں کو پریشانی گھیرلی ایک نہ ایک تکلیف میں سب لوگ مبتلا ہو گئے سکون چین کھو بیٹھے رزاق بیگ کی بیوی کو حلق میں گانٹھ پیدا ہو کروہی گانٹھ منہ گردن چہرہ اور سر مین پھیل گئے۔ جس سے رزاق بیگ کی بیوی کا جینا مشکل ہو گیا۔ یہ حال دیکھ کر رزاق بیگ نے کہا تمہاری گندی زبان دودھ نانا کے دل کو دکھائی اسکا نتیجہ تمہیںیہاں تک پہنچایا جب تک تم سب پیراں سے معافی نہیں مانگتے تب تک تمہاری پریشانی ہرگز دور نہ ہوگی۔ اس بات کو جب گھر کے لوگوں نے سنا تو اُن سب کو یقین ہو گیا کہ ہماری بدزبانی کا نتیجہ ہے سب لوگ پچھتائے اور معافی مانگنے کی خواہش ظاہرکی اور رزاق بیگ سے کہنے لگے تم فوراً ہبلی جائو اور دودھ نانا کو لکشمیشور بلالائو ہم سب اُن سے معافی طلب کرتے ہیں اس بات کو سن کر رزاق بیگ خوش ہوئے اور اپنے پیر دودھ نانا کوبلانے کے لئے گئے۔ ہبلی میں مل کر ساری باتیںاور اپنے گھر کا حال سنایا اور لکشمیشور آنے کے لئے درخواست کی دودھ نانا ہبلی سے لکشمیشور آئے گھر میں داخل ہوتے ہی سب لوگ نانا کے قدم بوس ہوئے اپنی غلطی کی معافی چاہی اپنی تکلیف کو تفصیل سے سُنائے سب لوگوں کی پریشانی جسمانی امراض میںمبتلا ہوئے لوگوں کو دیکھ کر دودھ نا نا کہے اُٹھو اﷲبڑا مہربان رحم والا ہے کہتے ہوئے سب کو اُپر اُٹھائے رزاق بیگ کی بیوی کا چہرا گانٹھیوں سے بھر گیا تھا ڈراونی شکل ہوگئی تھی۔دودھ نانا اپنا لعاب دہن ان کے چہرے کے گانٹھوں پر لگائے لعاب دہن کے لگتے ہی منہ کے حلق کے گردن کے سب گانٹھ پگل گئے اور چہرہ پہلے کی طرح برابر ہوگیا یہ نظارہ وہاں پرجمع ہوئے سب لوگ اپنی آنکھوںسے دیکھااور دودھ نانا کے گن گانے لگے لکشمیشورکے لوگوں میں چرچا ہونے لگا۔ دودھ نانا کو دیکھنے اور ملنے آنے لگے۔چند دن گزرگئے تو لوگوں میں نانا کا چرچا بہت ہونے لگا اور بہت سے لوگ بیت ہوئے۔ لوگوں نے طے کیا کہ دودھ نانا کو لکشمیشور کے علاوہ کہیں جانے نہ دیں گے ۔ ا س دوران دودھ نانا پرانے آثار میں رہنے لگے جہاں پر امین شاہ قادری اور گنجام والے صوفی پیراں کے مزارات ہیں اس طرح دودھ نانا آخری وقت تک لکشمیشور میں ہی رہے۔ 14-2-1889کو داول بی احمد صاحب ملاں عرف ملنگ نور سے درگاہ کی زمین بذاتِ خود خریدی اور اپنی خریدی ہوئی جگہ میں ہی مدفون ہوئے ۔دودھ نانا کولکشمیشورلانے والے رزاق بیگ مرزا کے خاندان والے لوگ آج بھی لکشمیشور کے پرانے آثار میں باحیات ہیں
No comments:
Post a Comment