تاریخی اوراق اورپلیگ کی بیماری دور کرنا
عبدالقادر انچی موظف ہائی اسکول ٹیچرلکشمیشور
ملک ہندوستان کے خطہ دکن ریاست کرناٹک میں واقع قدیم تاریخی مقام بنکاپور کے دامن میں آباد قدیم شہر جو پہلے پلگیری نام سے پکارا جاتا تھا۔ دینی روحانی علمی ادبی تاریخی اعتبار سے یہ بلندمقام رکھتا ہے۔ صدیوں تک روحانی تزکیہ کا مرکزاور علم و ادب کاگہوارہ رہاہے۔ لکمشیشورکو سترھویں صدی عیسوی کے عظیم المرتبت اولیاء اﷲ اور سلسلئہ چشتِ کے اکابر شیوخ نے اپنی دینی سرگرمیوں کا مرکز اور مسکن بنایا۔ جیسے شیخ عثمان ؒ کا تکیہ، حضرت ابراھیم شاہ قادری کی موتی مسجد، ملک سادات کا دینی مرکز، قادربادشاہ کا دوایکر تعلیم گاہ، بڑے لنکا پتی چھوٹے لنکا پتی کا روحانی مرکز، صوفی امین الدین شاہ قادری کا آثار وغیرہ ۔ یہاں کے پاکیزہ ماحول اعلی روحانی تہذیبی اور معاشرتی اقدارنے وقت کے بادشاہوں سمیت تمام عالم کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ آج بھی یہ نورانی سرزمین عالم رنگ و بو میں اہل دل اہل نظر اور تصوف کے طالب علموں کیلئے جازبیت رکھتی ہے۔ جیسے مکتی مندر کے راستے پر دارلعلوم کا قائم ہونا۔
مقامی بزرگان دین کے تعلق سے تاریخی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے نظر ڈالیں تو یہاں ہر ولی انسانوں کو دین اسلام کی دعوت دینے کے لئے مبعوث فرمائے گے۔
زندگی کا ہر وہ فعل جو ایک انسان نیند سے جاگنے سے لے کر سونے تک کے دوران انجام دیتا ہے اگر وہ اسوہ رسول صلی اﷲ علیہ و سلم اور قرآنی ہدایت کے مطابق ہے تو وہ عبادت میں شامل ہے۔ اسی لئے تو ایک پیغمبرنے اﷲ تعالیٰ سے امت محمدیہ ﷺ میں پید اہونے کی تمنّا کیا تھا۔ اس لحاظ سے اُمت کا ہر بچہ خوش قسمت ہے۔
انسان کو عمل کا اختیار دیاگیا ہے۔ زمین پر فتنہ وفساد برپا کرنے والی مخلوق ہوگی۔ ایمان قبول کرنے کے باوجود اُمّت کے افراد میںگمراہی بھی، بغاوت بھی، بداعمالی بھی ظاہر ہوگی۔ اسی کیفیت میں توازان قائم رکھنے کے لئے جزا اور سزا کاپیمانہ بنایاگیا ہے۔ اسی بات کے پیش نظر اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ و سلم نے ہدایت کی کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو لوگوں کو دین کی طرف بلائے۔
شریعت پر سختی سے عمل کرکے بزرگی حاصل کرنے کے راستے کو طریقت کہاگیا ۔ نفس پر جبر سرکشی پر قابو پانے کے لئے مجاہدے مشقتیں صبر و آزمائش کی منزلیں پارکرنا خدا کا دین بندوں تک پہنچانے کی ذمہ داری نبھانے والے لوگوں کیلئے اﷲ تعالیٰ نے قرآن میں اپنا دوست و لی ہونے کی بشارت دی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ اﷲ کے نیک بندوں نے اس راستے سے چل کر خدا کو اپنا دوست بنایا۔ خدا نے زبان خلق سے ان میں سے کسی کو پیران پیر کسی کو غریب نواز،بندہ نواز، محبوب الٰہی، دودھ نانا، داداحیات قادر ولی کہلوائے۔
ان بزرگوں نے جہاں جہاں بھی شمع ہدایت روشن کی اس کے اطراف میں راہ ہدایت کے متلاشی ہزاروں بندگان خدا پروانہ وار جمع ہوگئے۔ ان بزرگوں نے ایک ایک نشست میںسینکڑوں افراد کو دین اسلام قبول کروایا۔یہ ایسا سلسلہ ہے جو انشاء اﷲ تاقیامت چلتا رہے گا۔
بزرگان دین کی زندگی کا واحد مقصد شریعت محمدی صلی اﷲ علیہ و سلم پر سختی سے عمل کرنا ، شرکس نفس کو قابو میں رکھنا، خدا کی بندگی پر قائم رہنا، ہزاروں گمراہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دینا ہوتا ہے
لکشمیشور کے برگذیدہ ہستیوں میں سب سے آخر میں بسنے والے حضرت سید سلیمان بادشاہ قادری بغدادی ہیں۔مقام پیدائش بغداد ہے۔ خاندان حنکاری ہے۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد تجارت کا سہارا لیتے ہوئے دعوتِ دین کو اپنا کرہندوستان میں داخل ہوئے۔ دہلی کیترکمان گیٹ میں کئی سال رہے۔ اجمیر شریف ہوتے ہوئے ہبلی شہرآئے۔ عربی پڑھاتے ہوئے چند سال رہے۔ لکشمیشور کے رزاق بیگ سے ملاقات کے بعد اُن کے اسرار پر لکشمیشور میں داخل ہوئے۔ اپنی خریدی ہوئی زمین پر جواب درگاہ شریف ہے وہیں اپنا مرکز بنایا۔
اُن کے زمانے میںلکشمیشور والوں پر مارکا یعنی پلیگ کی بیماری کو اپنے ہی نرالے انداز سے ہمیشہ کے لئے روک دیا گیا۔ یہ بیماری چوہوں سے پھیلنے والی خطرناک بیماری تھی گھر میںایک چوہا چھت سے خودبخود مرکر گرجاتا تو اُس کے جسم کے پسوّںکے کاٹنے سے پلیگ کے جراثیم گھر کے تمام لوگوں میں داخل ہوجاتے تھے گھر دوروز میں خالی ہوجاتا تھا۔اطراف کے گائوں خالی کر کے دو تین میل کے دوری پرلوگ جھونپڑیاںبنا کر رہتے تھے۔ بیماری کم ہونے تک واپس گائوں میں داخل نہیں ہوتے تھے۔
حضرت نے مریدوں کے اسرار پر بیماری کو روکنے کے لئے اپنی گھوڑی کو ساتھ لیکر درگاہ سے گائوں میں نکلے۔ لوگوں کو درود شریف پڑھنے کے لیے کہتے وبا کی کالی بلا کو بھگاتے بھگاتے گائوں کے باہر چاربوتلوں میں قید کر کے چار کونوں میں دفن کردیئے۔ اسی رو ز سے یہ پلیگ کی بیماری ہمیشہ ہمیشہ کے لئے لکشمیشور آنا بند ہوگئی۔
یہ بات بھی لوگوں میں عام ہے کہ دودھ نانااپنی گھوڑی کے لئے کلتھی کے دا نے ابال کرکھلایا کرتے تھے اس کے اُبلے پانی کو لوگ شوق سے لے جاتے اور بیمارکو پلا کر شفا پاتے ۔
نانا جان کی درگاہ کو چند سالوں سے زائرین کی تعداد ہر اماوس پربڑھتی جارہی ہے۔ ہم نے لوگوں سے یہ بات سنی ہے کہ دودھ نانا کہاکرتے تھے ’’میری وفات کے پچاس سال بعد میرے عقیدت مندوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا‘‘۔
درگاہ میں مسجد کی تعمیر، گنبدبنانا، سامنے بلند دروازہ بنانا وغیرہ دیش کے کونے کونے سے لوگ مراد حاصل کرنے آنا عقیدت مندوں کی تعداد میں اضافہ ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔ ہر سال 12شوال کوعرس دھوم دھام سے منایاجاتا ہے۔
No comments:
Post a Comment