Wednesday, June 20, 2018

وفاتِ دودھ نانا

doodh nana sandal badshah qadri someshwara temple laxmeshwar karnataka laxmeshwar population doodh nana dargah nearest railway station laxmeshwar taluk villages list laxmeshwar videos laxmeshwar to gadag lakkundi temples photos doodh nana sandal badshah qadri someshwara temple laxmeshwar karnataka laxmeshwar population doodh nana dargah nearest railway station

وفاتِ دودھ نانا

نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریمہ امّابعد
فاعوذ بااﷲ من الشیطان الرجیمہ بسمہ اﷲ الرحمٰن الرحیم۔
اﷲ تبارک و تعالیٰ قرآن مقدس میں ارشاد فرماتا ہے ّکلٓ نَفَس ذَائِ قہُ المَوت۔ ترجمہ۔ ہرنفس کو موت کا مزاہ چکھناہے۔ یعنی  موت جب آتی ہے اور جہاں آتی ہے وہاں آکر رہے گی۔ ہاں یہ ضرورہے کہ موت ایمان والوںاور اطاعت رسول والوں کے لئے بے شمار نعمتوں کے حصول کا ذریعہ ہے۔
اگرچہ مومنین اور صالحین کے لئے اﷲ تعالیٰ اس میں آسانی فرماتا ہے۔ اور اس کے برعکس کفار اورنافر مانوں کے لئے یہ لمحہ سخت ترین ہوتاہے اور ملک الموت جب ان کی روح قبض کرتے ہیں تو کافر کی حالت دیدنی ہوتی ہے۔ اور اس کی شدت کی وجہ سے اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں اور اس کی روح اس کے جسم سے نکلنے سے انکار کردیتی ہے کیونکہ اس کو اپنا المناک انجام نظر آرہا ہوتا ہے اور جہنم میں اس کا جو مقام ہوگا وہ اسے دیکھائی دیتا ہے۔ اس لئے فرشتے اس کے رگ میں گھس کر اس کو باہر کھینچ لاتے ہیں لیکن بندہ مومن کی یہ حالت نہیں ہوتی بلکہ وہ آدمی جس کو ایمان کی دولت نصیب ہو۔ تو اس کے لئے اس کی شدت میں کمی ہوتی ہے۔ بلکہ اس کو یہ مژدئہ جانفزا سنایاجاتا ہے۔
کہ اے نفس مرضیہ اپنے رب کے پاس واپس لوٹ آیعنی اس مخصوص مقام کی طرف جہاں وہ اپنے بندوں کو اپنی خصوصی عنایات سے سرفراز فرماتا ہے تو اس کی محبت میں آنسو بہاتا رہا اور اس کے عشق کی آگ میں جلتا رہا اور تو اس کے سوز فراق میں تڑپتا رہا۔ اب فراق کی طویل رات سحر آشنا ہو رہی ہے۔ دور یاں سمٹ رہی ہیں پردے اٹھ رہے ہیں، تو اپنے بے تاب دل اور بے تاب نگاہوں سمیت حاضر ہوجا۔ ڈرتے ہوئے نہیں۔ گھبراتے ہوئے نہیں اس خیال سے پریشان ہو کر نہیں کہ جس کو راضی کرنے کے لئے ۔ توراتوں کو جاگتا رہا۔دن کو روزہ رکھتا رہا اور اپنے دامن کو گناہوں کی آلودگیوں سے پاک رکھتا رہا۔ حسن اخلاق اور نیک اعمال کا مرقع بنارہا کہ وہ راضی بھی ہوا ہے یا نہیں ان خدشات اور ان وسوسوں کو دل سے نکال کر باہر پھینک دو حریم ناز میں اس شان سے آئو کہ تم اپنے رب کریم کی عنایات پر راضی اور وہ پروردگار بھی تجھ سے راضی
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ رسول اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جب کوئی شخص مرنے لگتا ہے تو اس کے پاس  فرشتے حاضرہوتے ہیں اگر وہ شخص مومن اور صالح ہوتو اس سے بڑے محبت بھرے لہجے میں کہتے ہیں۔ اے پاک نفس! اپنے جسم سے باہر آجا تجھے راحت اور خوشبو دار غذا کی بشارت دی جاتی ہے۔ اور تیرا رب تجھ سے ناراض نہیں وہ فرشتے اسے اس طرح مژدہ جانفزا سناتے رہتے ہیں جب وہ جسم سے باہر نکل آتی ہے تو فرشتے اسے ریشمی اور خوشبو دار  ر و مالوں میں لپیٹ کر آسمان کی طرف چلتے ہیں اور آسمان کے دروازے اس کے لئے کھول دئیے جاتے ہیں اہل آسمان پوچھتے ہیں یہ کون ہے انہیں بتایاجاتا ہے  ۔یہ ا ﷲ تعالیٰ کا فلاں نیک بندہ ہے تو اسے ان کلمات سے خوش آمدید کہتے ہیں۔‘‘ اے پاک نفس !پاک جسم کے مکین ! تو عزت و آبروکے ساتھ اندرداخل ہوجا اور تجھے آرام اور کریم رزق کی بشارت ہے۔ تیرا رب تجھ سے ناراض نہیں ہے‘‘۔ اور فرشتوں کا خوش آمدید کہنا ہر آسمان پر اسی طرح جاری رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اس بلندی پر پہنچ جاتا ہے۔ جہاں اﷲ تعالیٰ اپنی شان کے ساتھ جلوہ افروز ہوتا ہے۔اگروہ شخص کافربد کردار اور حیاباختہ حرکات کا مرتکب ہوتو ملک الموت اسے بڑی ہی نفرت اور ترش لہجے میں کہتا ہے۔
’’ اے خبیث نفس ! خبیث جسم کے مکین تو ذلت و رسوائی کے ساتھ اس خبیث جسم سے باہر آجا اور تجھے جہنم کا کھولتا ہوا پانی مبارک ہو۔‘‘
وہ فرشتے ایسے ہی کہتے ہیں یہاں تک کہ وہ جسم سے باہر آتی ہے۔ اسے لے کر آسمان کی طرف عروج کرتے ہیں اس کے لئے آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔پوچھا جاتا ہے یہ کون ہے تو انہیں بتایاجاتا ہے کہ نفس خبیث جسم کا مکین ہے اس کے لئے کوئی راحت و سکون اور کوئی خوشی نہیں۔ ذلیل و رسوا ہواور واپس پلٹ جا۔ تیرے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور اسے پہلے آسمان سے  ہی واپس کردیاجاتا ہے۔ یہاں تک وہ روح اپنی اسی قبر کی طرف لوٹ جاتی ہے جو دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے۔
یہ جو کچھ مذکور ہوا یہ اس شخص کے متعلق ہے جو ساری زندگی ۔ اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا رہا اور اسے ایمان لانے کی توفیق نہ ہوئی لیکن بندہ مومن اور اﷲ تعالیٰ کے اطاعت گزار کے ساتھ ازحدنرمی کا برتائو کیاجاتا ہے۔ بلکہ جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ اور شگفتگی ہوتی ہے۔
اسی صالحین کی مبارک جماعت میں ایک حضور سید سلیمان بادشاہ قادری [دودھ نانا] کی ذات مبارک بھی ہے۔ حضور سید سلیمان بادشاہ قادری اپنی وصال شریف سے ایک ہفتہ قبل حاضرین محفل مین ارشاد فرماتے ہیں۔ ایک ہفتہ بعد میں سفرآخری پر روانہ ہوجائوں گا۔ حاضرین و خادمین نے عرض کی حضور آپ کے بعد ہم بے سائبان ہوجائینگے۔ آپ کے بعد ہمیں ہماری غلطیوں پر کون مخلصانہ تنبیہ کریے گاکون ہمارا شریک غم و مسرت ہوگا؟ دودھ نانا فرماتے ہیں۔
مجھے اور تمام کو پیدا کرنے والا خالق دو عالم تمہاری مددٖفرمائے گا۔ اُسکی عبادت خلوص سے کرنا، اتحادو اتفاق کے ساتھ رہنا۔ حق گوئی کو اپنائوا انشا اﷲ تم کامیاب وکامراں رہو گے، دودھ نانا کی تسلّی بخش جملوں نے حوصلہ بخشا۔ آخر قرآن کی اس آیت  ہر جان کو موت کا مزہ چکھناہے پھرہمارے ہی طرف پھروگے ( سورہ عنکبوت آیت نمبر۵۷)کے مطابق دودھ نانا ۶۸ سال کی عمر میں  بروز جمعہ ۱۲ شوال ۱۳۱۰ ؁ہجری مطابق1890؁ ء میں پردہ فرمائے اس دن شہر لکشمیشور میں سناٹا چھاگیا۔ ہر فرد چاہے ہندوہو مسلم غمگین تھا۔ لوگوں کے سر سے اﷲ والے کا سایہ ظاہر ی طور پر اُٹھ چکا تھا۔ تاریخ میں اور ایک سیاہ و غمگین  دن کا اضا فہ ہوچکا تھا۔ کیا عورتیں کیا بوڑھے کیا بچے ہر کوئی دوڑا دوڑا دودھ نانا کے حضور حاضر تھا۔ اسی لمحات غم میں تجہیز و تکفین کی تیاری ہونے لگی۔ بھیگی پلکوںکا بوجھ لئے غسل دیا گیا۔ مین روڑ[بازار روڑ] سے آپ کا جنازہ گشت کرتے چلا لوگوں کا ہجوم ہزاروں کی تعداد میں ہرایک کے آنکھوں میں آنسوں امڑ رہے تھے لوگوں کو کندھا دینے کے لے تکلیف ہو رہی تھی بھیڑ میں لوگ دوڑ ے دوڑے آتے اور موقعہ پاکر جنازے کو کندھا دیتے درود پڑھتے ہوئے جنازے کو لے گئے ۔ حضرت سید ملک سادات عرف گنبذنانا کے آستانے کے مقابل نمازجنازہ ادا کی گئی۔ عوام و خواص کا بے پناہ ہجو م تھا۔ پھر آپ کا جنازہ آثار لایا گیا۔ اور روتے ہوئے آہ وفغاں کے ساتھ جسم اطہر سپردخاک کیا گیا۔ ہر سال ۱۲ شوال کو آپ کا عرس مبا رک منایاجاتاہے۔ زائرین کا بڑا ہجوم ہوتا ہے۔ آپ کا مزارا قدس مرجع خلائق بنا ہوا ہے۔ بلاتفریق مذہب و ملت ہر انسان زیارت مزار اقدس کو باعث سعادت سمجھتا ہے۔

No comments:

Post a Comment

Urdu

Popular Posts

Popular Posts