رشیداحمد مشیر وظیفہ یاب میرمعلم دھارواڑ
ساسل واڑ کے جنگل میں چلّہ بیٹھنا
واﷲ جو سرے لوح تیرا نام نہ ہوتا
ہر گز کسی آغاز کا انجام نہ ہوتا
40دن تک ’’ساسل واڑ‘‘ گائوں کے قریب تنگ بھدرا ندی کے کنارے بھیانک جنگل میں عبادت میں گزارے یہ بھی ایک کرامت سے کم نہیں
حضرات پہلے آپ بزرگوں کے خواب کے متعلق جان لیجئے۔ اﷲ والوں کے خواب کے متعلق حضرت جنید بغدادی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں صوفی چشم ظاہر سے جو دیکھتا ہے اُس میںغلطی کا تو امکان ہے۔ مگر جو خواب میں نظر آتا اُس میں غلطی نہیں ہوتی‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مشائخ ’’قصداً اسی غرض سے سوتے ہیں کہ اُن کو جوبات معلوم کرنی ہے۔ خواب میں معلوم ہوجائے، ہو سکتا ہے یہ لوگ اسی سبب سے خواب کو بیداری پر ترجیح دیتے ہونگے۔ جیسے اصحاب کہف کا قصہ وہ تین سو (300)سال تک سوتے رہے۔
اب ذرا حضرت سید سلیمان بادشاہ قادری رحمتہ اﷲ علیہ کے خواب کے بارے میں سُنئے۔ آپ ایک روز اپنے مریدوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، ہر مرید اُن کی ہربات کو پتھر کی لکیر سمجھ کر سُن رہا تھا۔ باتوں بات میں اپنے خواب کو یوں بیان فرمایا کہ ’’امے میرے چاہنے والو میں نے خواب دیکھاہے
کہ میںکسی گھنے جنگل میں خُدا کی یاد میں بیٹھنے کے لئے جارہا ہوں ، اور میں چاہتا ہوں کہ فوراً وہاں چلاجائوں اور خواب کی تعبیر پوری کروں، مجھے خواب میں اُس جگہ اور جنگل کی نشانیاں بھی بنائی گئی ہیں‘‘۔
اب ذرا حضرت سید سلیمان بادشاہ قادری رحمتہ اﷲ علیہ کے خواب کے بارے میں سُنئے۔ آپ ایک روز اپنے مریدوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، ہر مرید اُن کی ہربات کو پتھر کی لکیر سمجھ کر سُن رہا تھا۔ باتوں بات میں اپنے خواب کو یوں بیان فرمایا کہ ’’امے میرے چاہنے والو میں نے خواب دیکھاہے
کہ میںکسی گھنے جنگل میں خُدا کی یاد میں بیٹھنے کے لئے جارہا ہوں ، اور میں چاہتا ہوں کہ فوراً وہاں چلاجائوں اور خواب کی تعبیر پوری کروں، مجھے خواب میں اُس جگہ اور جنگل کی نشانیاں بھی بنائی گئی ہیں‘‘۔
اتنا بتاکر وہ اپنے’’ جگنا ‘‘نامی گھوڑے کو لیکر چلنے کے لئے فوراً تیار ہو گئے۔اور مریدوں سے کہا کہ اس خواب کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ شاید میری آزمائش کرنا چاہتا ہے۔ اور مجھے اُس کے امتحان میں کامیاب ہونا ہے۔ لہٰذا مجھے فوراً وہاں جانا ہوگا یہ کہہ کر وہ گھوڑے کوایڑ لگارہے تھے کہ مردیدوں نے کہا، حضور والا، ہم بھی آپ کے ہمراہ آپ کو اُس جگہ تک چھوڑنے کے لئے آتے ہیں۔ مریدوں کا یہ جوش اور ولولہ دیکھ کر آپ نے فرمایا کہ ’’اے میرے ساتھیوں، میں اُس جگہ تک جتنا جلد تیز رفتاری سے جا سکتا ہوں اُس تیز رفتاری سے آپ نہیں جاسکتے ۔ مجھے جلدسے جلد اُس جگہ پہنچنا ضروری ہے۔ یہ کہہ کر مریدوں کوتسلی دی اور گھوڑے کو ا یڑلگا دی۔
وہ جنگل جس کی نشاندھی خواب میں کی گئی تھی وہ تھی شرہٹی تعلقہ کے ’ہیبال‘ قریہ کے قریب کاگائوں ساسلواڑ۔ یہاں تنگ بھدراندی بڑی شاندار دکھائی دیتی ہے۔ ساسلواڑ کے جنگل میں ندی کے بیچوں بیچ دو تین جزیرے ہیں اُن میں ایک جزیرہ بڑاہی بھیانک اورخطرناک جھاڑیو ں اور موزی جانوروں سے بھرا ہواہے حضرت سیّد سلیمان بادشاہ قادری بغدادی رحمتہ اﷲ علیہ نے اُسی خطرناک جزیرے کو خواب میں دیکھا تھا۔ اور
وہیں جانے لگے تو آس پاس کے لوگ جو پہلے اکھٹاہوگئے تھے اُن کو وہاں جانے کے بعد کیا ہوگا۔ کتنی بھیانک جگہ ہے۔ کتنے زہریلے جانور وہاں رہتے ہیں۔ کیسا گھنا جنگل ہے کیسی کیسی پریشانیاں اور مصیبتیں اُس جگہ پیش آئیں گی سب بتاکر وہاں جانے سے روکنا چاہا۔ اور یہاں تک کہہ دیا کہ وہاں جو بھی گیا ہے زندہ بچ کر واپس نہیں لوٹا لہٰذا آپ برائے مہربانی اُس جگہ مت جائیے۔ رک جائیے وہاں زہر یلے سانپ بچھو، مگر مچھ اور جان لیوا درندے بسیرہ کرتے ہیں۔ آپ ہماری بات مان لیجئے اور مت جائیے۔ مگر یہ اﷲکے بندے کب ماننے والے ۔
آ پ رحمتہ اﷲ علیہ اپنے چاہنے والوں سے مخاطب ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے میرے چا ہنے والو میں یہاں آنے سے پہلے ہی اپنی ساری ارمانیں، اپنی خواہشیں، جان کا خوف ۔اوراپنامرنا جینا سب کچھ اُس یکتائے بے نیاز کے حوالے کرچکا ہوں جو ساری کائنات کا پالن ہار ہے۔
اور یادرکھو’’اگر تم اﷲ کے در سے کچھ فیض پاناچاہو تو وہ موت کی چوکھٹ (دہلیز)میں ہے۔ لہٰذا میں واپس نہ جائوں گا۔مجھے جانے سے مت روکو‘‘۔ اور پھر آپ نے فرمایا کہ’’ میں اس جگہ پر 40دن تک رہوں گا۔ اُس کے بعد واپس ضرور آئوںگا۔ 40دن کے بعد تم یہاں آنا میرے پاس ایک ہرا کپڑا (جھنڈا) ہے۔
40روز کے بعد میں وہ کپڑا اُونچی جگہ پر لہرائونگا۔ وہ دیکھو تو سمجھ جانا کہ میں زندہ ہوں‘‘۔ اتنا کہہ آپ فوراً اُس خطرناک جزیرہ میں چلے گئے۔ جو موت کے کنوئیں سے کم نہیں تھا۔ وہاںپہنچ کر آپ دنیا سے بے نیاز ہوکر خدا کی یادعبادت وریاضت اور وظیفے میں لگ گئے۔ اﷲوالوں کی شان ہی نرالی ہے۔ جزیرہ کے اطراف پانی کے موجوں کے شور، چرندوں پرندوں اور دل دہلا دینے والے درندوںکی گرج (پکار) زہریلے سانپوں بچھوئوں اور مگر مچھوں کا خوف ان سب کی پرواہ کئے بغیر آپ خالص یاد خُدا میں مشغول ہو گئے۔
اور یادرکھو’’اگر تم اﷲ کے در سے کچھ فیض پاناچاہو تو وہ موت کی چوکھٹ (دہلیز)میں ہے۔ لہٰذا میں واپس نہ جائوں گا۔مجھے جانے سے مت روکو‘‘۔ اور پھر آپ نے فرمایا کہ’’ میں اس جگہ پر 40دن تک رہوں گا۔ اُس کے بعد واپس ضرور آئوںگا۔ 40دن کے بعد تم یہاں آنا میرے پاس ایک ہرا کپڑا (جھنڈا) ہے۔
40روز کے بعد میں وہ کپڑا اُونچی جگہ پر لہرائونگا۔ وہ دیکھو تو سمجھ جانا کہ میں زندہ ہوں‘‘۔ اتنا کہہ آپ فوراً اُس خطرناک جزیرہ میں چلے گئے۔ جو موت کے کنوئیں سے کم نہیں تھا۔ وہاںپہنچ کر آپ دنیا سے بے نیاز ہوکر خدا کی یادعبادت وریاضت اور وظیفے میں لگ گئے۔ اﷲوالوں کی شان ہی نرالی ہے۔ جزیرہ کے اطراف پانی کے موجوں کے شور، چرندوں پرندوں اور دل دہلا دینے والے درندوںکی گرج (پکار) زہریلے سانپوں بچھوئوں اور مگر مچھوں کا خوف ان سب کی پرواہ کئے بغیر آپ خالص یاد خُدا میں مشغول ہو گئے۔
اس دوراں ایک زہریلا سانپ ہر روز آپ کے پاس آکر اپنے مخصوص اندازمیں آپ کو سلام کرتا اور آپ کی پیٹھ کے پیچھے آکر اپنی پھن پھیلا کر آپ پرسایہ کرتا رہتا اس خیال سے کہ کہیں کوئی دوسرا موزی جانور آپ کو ستانہ سکے گویاوہ آپ کی ہر روز حفاظت میں لگ گیا۔
حضرت کی ریاضت عبادت اور وظائف کی حرکت سے اُس جنگل کے ہر جانور کو محسوس ہو گیا کہ یہاں کوئی اﷲ کا نیک بندہ آیا ہوا ہے۔ ہم سب کو اُن کی حفاظت کرنا ضروری ہے۔ لہٰذا ایک بہت بڑا مگر مچھ آیا اور اپنے انداز میں آپ کو سلام کیا اُن کے پیروں کے پاس اس خیال سے40دن تک بیٹھتا رہا کہ اگر کوئی دوسرا موزی جانور ان کو ضرر پہنچانے آئے تو اُس کو ماروں گا اور ان کی حفاظت کروں گا۔ ہر حال اُس خطرناک جنگل کا پتہ پتہ بوٹا بوٹا ۔ ہر ایک درند ،پرنداورچرند40دن تک ان کی حفاظت میں لگ گئے۔
40دن پورے ہونے کو تھے کہ ساسلواڑ اور اُس کے آس پاس کے تمام لوگ جمع ہوگئے۔ اور دور سے ہی اُس ہرے کپڑے کو تلاش کرنے لگے۔ اُتنے میں آپ نے اُس جھنڈے کو ایک اونچی جگہ لہرادیا۔ لوگوں نے ہرے کپڑے کو دیکھا تو خوش ہوئے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ پہلی شخصیت ہے جو اس خطرناک جنگل سے زندہ بچ کر نکل آئی ہے۔ وہ جان گئے کہ آپ ؒ اﷲ کے پیارے بندے اورہما رے پیرو مرشد ہیں۔ یہ سوچ کر تمام اُن کے قریب آکر اُن سے دُعائیں لیتے۔
جب آپ لکشمیشور کی جانب اپنا سفر شروع کیا تو تمام لوگ بہت دور تک اُن کااستقبال کرتے ہوئے ساتھ آئے۔ اور لوٹ گئے۔ جیسے ہی دودھ ناناؒ لکشمیشور کے گیٹ میں پہنچے تو لوگوں کا ہجوم دوڑپڑا اور اُنکو اُن کے مقام تک بڑی عزت اور احترام سے ان کی دوستی کا دم بھرتے ہوئے۔ لے آئے۔
No comments:
Post a Comment